۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
نماز جمعه قم

حوزہ/ امام جمعہ قم نے کہا: اگر اسلامی ممالک واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں اسرائیل کے سفارتخانوں کو بند کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ اپنے روابط منقطع کرنے چاہیے، کہ اسلامی امت کو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے فعال اقدام کرنا چاہیے، اور اسرائیل کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ محاصرے میں ہے، جو جاری رہے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قم المقدسہ میں نماز جمعہ کی خطبے کے دوران سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا : ایران کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد عالمی تکثیر پسندی کو ختم کرنا اور نئے سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی مراکز قائم کرنا ہے، انہوں نے روسیہ اور دیگر ممالک کو خبردار کیا کہ ایران کےتین جزیرے اور زنگزور کراسنگ ایران کی سرخ لکیر ہیں اور ایران اپنی سیاسی، انقلابی اور قومی مفادات میں کسی بھی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرے گا۔

آیت اللہ اعرافی نے مزید کہا : اگر اسلامی ممالک واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں اسرائیل کے سفارتخانوں کو بند کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ اپنے روابط منقطع کرنے چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسلامی امت کو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے فعال اقدام کرنا چاہیے، اور اسرائیل کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ محاصرے میں ہے، جو جاری رہے گا۔

انہوں نے ایران کی جامع اور ہوشمندانہ حکمت عملی کی تعریف کرتے ہوئے کہا : ایران صہیونی حکومت کے مظالم کا بدلہ لے رہا ہے اور یہ عمل جاری رہے گا۔ آیت اللہ اعرافی نے کہا کہ ایران کی خارجہ پالیسی عالمی تکثیر پسندی کو ختم کرنے اور نئے طاقتور مراکز کی تشکیل پر مرکوز ہے۔

حوزہ علمیہ ایران کے سربراہ نے تعلیم اور تربیت پر بھی زور دیا، اور کہا : نئی نسل کی تربیت میں خاندانوں، مدارس، یونیورسٹیوں اور میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ انہوں نے ایران کی علمی ترقی کی تعریف کی اور کہا کہ یونیورسٹیوں اور علمی مراکز کو اپنے کام میں تیزی لانی چاہیے تاکہ ایران کو عالمی سطح پر ممتاز بنایا جا سکے۔

انہوں نے دفاع مقدس کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا : ایران نے اس نابرابری کی جنگ میں بڑی طاقتوں کو شکست دی اور ایک نیا ثقافتی اور مزاحمتی ماڈل پیش کیا،دفاع مقدس نے ایران کی فوجی اور علمی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور ملک کو ایک خودمختار طاقت بنا دیا۔

آیت اللہ اعرافی نے کہا : فلسطین اور غزہ اسلامی دنیا کے اہم مسائل ہیں اور اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ ان مسائل میں فعال کردار ادا کریں، اگر اسلامی ممالک ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو وہ خود بھی اسی ظلم کا شکار ہو سکتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .